اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، نائیجیریا کے مسیحی اور مسلم رہنماؤں نے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں اشتعال انگیز اور قومی اتحاد کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
الخبر الجزائری اخبار کے مطابق، نائیجیریا کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے مشترکہ بیانات میں کہا کہ ٹرمپ کے ایسے بیانات سے صرف اندرونی کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور انتہا پسند گروہوں کو تقویت ملے گی۔
نائیجیریا، جو افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جغرافیائی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے — شمال میں اکثریت مسلمانوں کی اور جنوب میں مسیحیوں کی۔ یہ ملک طویل عرصے سے داخلی جھڑپوں اور مذہبی کشیدگی کا شکار ہے جس میں دونوں مذاہب کے پیروکار جانی نقصان اٹھا چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر نائیجیریا میں مبینہ طور پر مسیحیوں کی نسل کشی اور مذہبی تعصب سے متعلق دعوے گردش کر رہے تھے، جنہیں امریکہ اور یورپ کے انتہا پسند دائیں بازو کے حلقوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
اس کے ردعمل میں، نائیجیریا کے صدر بولا تینوبو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا:"مذہبی آزادی اور رواداری ہماری قومی شناخت کا بنیادی حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
الخبر کے مطابق، حالیہ برسوں میں نائیجیریا کے جنوب مشرقی علاقوں میں کچھ علیحدگی پسند گروہوں نے ملک میں مسیحیوں کے خلاف نسل کشی کے الزامات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔
دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک امریکی کمپنی موران گلوبل اسٹریٹیجیز واشنگٹن میں سرگرم ہے، جو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ نائیجیریا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
دوسری جانب، ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پیغام میں کہا کہ اگر نائیجیریا کی حکومت مسیحیوں کے قتل عام کو نہ روکی، تو امریکہ اس ملک کو دی جانے والی تمام امدادی رقوم بند کر دے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر نائیجیریا کی موجودہ صورتحال برقرار رہی، تو امریکہ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے براہِ راست فوجی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔
نائیجیریا کی حکومت نے امریکہ کی جانب سے ملک کو مبینہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ غلط معلومات پر مبنی ہے اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آپ کا تبصرہ